Category: اردو بلاگ

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

8 فروری 2024 کا سورج طلوع ہوا۔ میرے لیے حسب معمول وہ ایک اور تعطیل کا دن تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ آج کے روز دن بھر میں گھر میں مقید رہوں  گا۔ گھر سے باہر نکلا تو ہو سکتا ہے کسی سیاسی  جماعت کے کارکن یا پڑوسی سے ملاقات ہو جائے اور وہ مجھ سے پوچھے کہ میں نے ووٹ ڈالا یا نہیں، ڈالا تو کسے ڈالا؟ چوں کہ انگوٹھے پر سیاہی کا نشان بھی نہیں ہوگا تو جان بچانے کا حل بھی آسان نہیں۔ یہ بتا دیا کہ ہاں جی ووٹ نہیں ڈالا تو پھر شاید وضاحت بھی پیش کرنی پڑے کہ کیوں نہیں ڈالا۔

مجھ سے میرے طلبہ بھی جب یہ سوال کرتے ہیں تو میں انہیں یہی جواب دیتا ہوں کہ میں نے آج تک زندگی میں ووٹ نہیں ڈالا۔

آج سوچا کہ اس سوال کا جواب  یہاں تحریر کردوں کہ میں ووٹ کیوں نہیں ڈالتا۔

اس سوال کی اولین وجہ تو یہ بنتی ہے کہ اس ملک میں انتخابات بہ ظاہر آزادانہ، منصفانہ اور شفاف نہیں ہوتے۔ دھونس دھاندلی اور خریدو فروخت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ خود ووٹر کو بھی یقین نہیں ہوتا کہ وہ جسے منتخب کررہا ہے وہ کامیاب ہونے کے بعد اپنے حلف پر قائم رہے گا۔ آج ہی ایک خبر پڑھی کہ ایک سیاسی جماعت کے حمایت یافتہ آزاد رکن اسمبلی نے ایک اور سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی ہے کیوں کہ اس دوسری جماعت کے حکومت بنانے کا امکان قوی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی وجوہات  ہیں  جو اس دوسری جماعت کو باقی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ پسندیدہ بنا رہی ہیں۔

دوسری وجہ جو مجھے ووٹ ڈالنے سے روکتی ہے وہ سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کا غیر جمہوری اور غیر اخلاقی طرز عمل ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان لوگوں کے قول و فعل میں شدید تضاد ہے۔ یہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ جب یہ حکومت میں نہیں ہوتے تو عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں، اور جب حکومت میں آتے ہیں تو یہ عوام کو زمینی حقائق کی روشنیوں کے ذریعے ٹرخاتے ہیں۔ نہ تعلیم کا بجٹ بڑھایا جاتا ہے اور نہ ہی صحت کا۔ جب عوام کی بنیادی ضروریات ہی پیش نظر نہ رکھی جائیں تو پھر ایسے قائدین اور ایسی سیاسی جماعتوں کی حمایت کا فائدہ؟

تیسری وجہ یہ ہے کہ کم سے کم ہمارے ملک میں جمہوریت کا اصول میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک جماعت جو حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، ضروری نہیں وہ اس ملک کے اکثریتی عوام کی پسندیدہ ہو۔ یعنی جوڑ توڑ کے ذریعے یا اس بنیاد پر کہ آپ کو قومی اسمبلی میں مطلوبہ نشستیں مل چکی ہیں آپ حکومت میں آجاتے ہیں، جب کہ ابھی ملک کے اکثریتی عوام آپ کے حامی نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ جمہوری اصولوں کو عقل اور منطق کے مطابق تبدیل کر کے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال کے مطابق ہر سیاسی جماعت جو انتخابی عمل سے گزرتی ہے، اسے حکومت کا حصہ ہونا چاہیے۔ تاکہ کوئی احساس محرومی کا شکار نہ رہے، اور سب مل کر عوام کی خدمت کریں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کہ اس تجویز کو کس طرح ارباب حل و عقد تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ یہ تحریر اسی مقصد کے تحت لکھی گئی ہے کہ شاید  میری یہ تجویز ان لوگوں تک پہنچ جائے جو اس پر غور کر سکیں اور اسے لاگو کر سکیں۔

خالد ریاض  

مشیت الٰہی

قَالَ رَبِّ بِمَآ أَغْوَيْتَنِى لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ – سورہ الحجر، آیت ٣٩

اللہ پاک نے فرشتوں کو بتایا کہ وہ پاک ذات انسان کو تخلیق کرنے جا رہی ہے۔

فرشتوں نے اللہ کی طرف سے عطا کردہ علم کی بنیاد پر کہا انسان دنیا میں فساد برپا کریں گے (گویا انسانوں کو دنیا میں ہی بسانے کا انتظام تھا)۔ یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ آیا فرشتوں نے اللہ کے ارادے پر تنقید کی تھی۔ ایسا ہو نہیں سکتا، کیوں کہ فرشتوں کی فرمانبراری ثابت ہے۔ یقیناً اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چوں کہ فرشتوں کا علم ‘محدود’ ہے، ان کو اتنا ہی پتہ ہے جتنا اللہ نے انہیں علم دیا ہے۔ تو اپنے علم کی بنیاد پر انہوں نے اللہ کے اس ارادے کو سمجھنے کی کوشش کی ہو گی۔ ممکن ہے کہ اللہ نے آدم علیہ السّلام سے پہلے بھی انسان یا انسان نما کوئی مخلوق پیدا فرمائی ہو، اور ان کے اعمال اور اطوار پر فرشتوں کی نظر ہو۔ آگے اللہ فرماتا ہے کہ وہ بہتر جانتا ہے، یعنی جو اللہ جانتا ہے وہ کوئی نہیں جانتا۔

مولا نے فرمایا جو میرا فرمانبردار ہوگا وہ فساد نہیں پھیلائے گا۔

چوں کہ ابلیس فرشتوں کی معیت میں اعلیٰ مقام پر فائز تھا (اللہ جب چاہے اپنا عطا کردہ مقام چھین لے)، اس کے علم میں ملائکہ اور اللہ کے مابین یہ گفتگو لازمی ہوگی۔

اللہ پاک نے انسان (آدم) کو تخلیق کرنے کے بعد فرشتوں کو حکم دیا کہ انسان کو سجدہ کیا جائے (یہ حکم ابلیس کے لیے بھی تھا کیوں کہ وہ فرشتوں کی جماعت کا ایک رکن تھا)۔ یہاں سوال یہ نہیں کہ کس کو سجدہ کرنا ہے۔ کیا اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کیا جا سکتا تھا؟؟؟؟ سوال وہ کرتے ہیں جو فرمانبردار نہیں ہوتے۔ وہ اپنے علم، عقل اور لوجک کے پجاری اور فرمانبردار ہوتے ہیں۔ اللہ حکم دے کہ قبلہ رخ سجدہ کرنا ہے، تو بس کرنا ہے۔ یہ نہیں پوچھنا کہ کعبہ کے اندر ایسا کیا ہے کہ اس مکعبی ساخت کو سجدہ کیا جائے۔ بندگی بے چوں چرا ہوتی ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام میں عقل کے استعمال پر پابندی ہے۔ عقل کا استعمال سیدھے راستے کو پہچاننے اور اللہ کی معرفت کے لیے لازم ہے۔ اس کے علاوہ انسانیت کی فلاح کے لیے بھی (مثلاً انسانوں کے لیے مفید ایجادات اور ری سرچ وغیرہ کے لیے) عقل کا استعمال ضروری ہے۔

فرشتے، اللہ کے فرمانبردار بندے تھے، سجدے میں گر گئے۔ ابلیس تکبر اور حسد و جلن کا شکار ہو گیا۔ اس سے برداشت نہ ہوا کہ اللہ نے انسان کو جنات اور فرشتوں پر بھی فضیلت دی۔

تکبر اور حسد شیطانی صفات ہیں۔ یہ انسان کو مردود یعنی ذلیل و خوار کر دیتے ہیں۔

شیطان اتنا متکبر تھا کہ اپنی غلطی ماننے، نادم ہونے اور توبہ کرنے کے بجائے الٹا اللہ پر اپنی ناکامی کا الزام دھر دیا، کہ اللہ نے اسے گمراہ کیا (حالاں کہ امتحان تو سب کا ایک ہی تھا، فرشتوں کو مختلف پرچہ نہیں ملا تھا۔ فرشتے امتحان میں پاس اور شیطان فیل ہو گیا)۔ اسی پر بس نہیں، اس شیطان مردود کو انسان سے حسد اور جلن نے اسے تاقیامت انسان دشمنی پر آمادہ کیا۔ اللہ سے کہا کہ جس طرح آپ نے مجھے اس کڑے امتحان میں ڈال کر میرا سب کچھ مجھ سے چھین لیا، میں بھی یہ بات ثابت کر کے رہوں گا کہ میں درست ہوں، انسان افضل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے آپ مجھے طاقت اور مہلت دیں، میں انسانوں کو بھی ایسے ہی امتحان میں ڈالتا رہوں گا جیسے آپ نے مجھے ڈالا۔ پھر دیکھتے ہیں کہ کیا یہ انسان سجدے کے لائق تھا۔

ایک اور بات معلوم ہوئی کہ عاجزی، انکساری اور تائب ہونا غیر شیطانی صفات ہیں، اور اللہ کو یہ خصوصیات اپنے بندوں میں بہت پسند ہیں۔

سب کچھ رب کی مشیت ہے۔ ابلیس کی نافرمانی، اس کی گستاخی، اس کا اعلان جنگ، سب اللہ کی مرضی سے۔ ورنہ کس کی مجال جو اللہ کے آگے بول سکے؟

اللہ کا فرمانا تھا کہ جو اس کے فرمانبردار بندے ہیں وہ شیطان کے دام میں نہیں آئیں گے۔ یعنی یہاں مالک شیطان کے ذریعے اپنا ہی کام لے رہا ہے ☺️ انسانوں سے وہی امتحان ہر دم لے رہا ہے جو ملائکہ اور ابلیس سے لیا۔ سب مایہ ہے، نہ ملائکہ نہ ابلیس، بس اللہ ہی اللہ، اسی کا حکم، اسی کی مرضی۔ جو صحیح ہے وہ بھی اس کی مرضی، جو صحیح نہیں وہ بھی مالک کی منشاء۔

کینیڈا میں برطانوی ملکاؤں کے مجسمے گرا دیئے گئے

برطانوی وزیراعظم کی جانب سے برطانیہ کے انسانیت کے خلاف جرائم پر شرمندگی کے بجائے مجسمے گرانے پر ناراضگی

کیتھولک چرچ اور برطانوی حکومت کو 1000 بے نشان قبروں کا جواب دینا ہوگا جو برٹش کولمبیا اور سیسکاچیوان میں واقع سابقہ رہائشی اسکولوں سے دریافت ہوئی ہیں۔

سنہ 1996 تک کل ملا کر 165 سال ان اسکولوں نے کینیڈا کے اصل مقامی باشندوں سے زبردستی ان کے بچے جدا کیے، ان کو غذائی قلت اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔

منی ٹوبا کی صوبائی اسمبلی کے باہر جب ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ گرایا گیا، تو ایک ہجوم جھوم اٹھا۔ احتجاجی مظاہرین نے سابقہ ملکہ برطانیہ کے مجسمے کو لاتیں ماریں  اور اس کے گرد رقص کیا۔مجسمے اور اس کے پیندے پر سرخ رنگ سے ہاتھ کے نشان لگائے گئے۔

قریب ہی ملکہ الزبتھ کا مجسمہ بھی گرا دیا گیا۔ قارئین کو معلوم ہو کہ ملکہ الزبتھ، کینیڈا کی موجودہ سربراہ مملکت (ہیڈ آف اسٹیٹ) ہیں، جب کہ ملکہ وکٹوریہ نے 1837 سے 1901 تک کینیڈا پر حکمرانی کی، جب یہ خطہ برطانوی سلطنت کا حصہ تھا۔

کینیڈا کے اصل باشندوں کے بچوں کے حق میں جمعرات کے روز ٹورنٹو میں بھی مظاہرے کیے گئے، جب کہ دارالحکومت اوٹاوا میں #کینسل کینیڈا ڈے کے عنوان سے کیے گئے مارچ میں ہزاروں افراد نے رہائشی (نسل کش) اسکول سسٹم میں جان سے جانے والوں اور بچ جانے والوں کے حق میں شرکت کی۔

کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے مقتول بچوں کی باقیات دریافت ہونے کو ملک کی تاریخی ناکامی قرار دیا۔ ان کے مطابق کینیڈا کے مقامی باشندوں اور دیگر لوگوں کے خلاف ناانصافی پر مبنی رویہ تا حال جاری ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ یہ وہی برطانیہ ہے جو دنیا خصوصاً ہندوستان کو تہذیب اور تمدن سکھانے کی غرض سے آیا تھا۔ لیکن اپنے کردار کی غلاظت اور تعفن سے دنیا میں جگہ جگہ اپنی بدتہذیبی اور مجرمانہ تمدن کے نشانات چھوڑے۔

افسوس یہ ہے کہ جن ممالک میں سلطنت برطانیہ نے اپنا سامراجی اور نوآبادیاتی نظام قائم کیا، وہاں کے تعلیمی نظام پر یہ آج تک قابض ہے۔ پاکستان میں آرڈینیری اور ایڈوانس لیولز (او اینڈ اے لیول)  کے نام پر جو کری  کیولم نافذ ہے، اس کے علاوہ جو پاکستان کا مقامی تعلیمی نظام ہے، اس میں برطانوی نو آبادیاتی جرائم کی پردہ پوشی کی گئی ہے۔ خصوصاً 1857 کی جنگ آزادی کے بعد جب ہندوستان کے ہندو اور مسلمان عوام کا ہولوکاسٹ کیا گیا، اور حکومت برطانیہ کی جانب سے ہندوستان کے وسائل پر ڈاکے کے نتیجے میں لاکھوں ہندوستانی خوراک کی قلت سے بار بار جان کی بازی ہارے، حیدر علی اور سلطان فتح علی ٹیپو کے ہاتھوں جس طرح برطانوی کارندوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔۔  یہ سب حقائق  نام نہاد پاکستان اسٹیڈیز کی کتابوں میں شامل نہیں کیے گئے ہیں۔

طرفہ تماشہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے علم بردار یہی لوگ، دنیا کو انسانی حقوق پر لیکچر دیتے نظر آتے ہیں۔

موئن جو دڑو کی سرزمین سے: غرباء کے مکانات کا انہدام

تقریباً 2 سال پہلے سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس صاحب نے سوشل میڈیا اور ‘سرکاری و غیر سرکاری‘ میڈیا پر ‘ہیروپنتی‘ کے چکر میں ‘عوام‘ کی جائیدادیں، قانون کی چھتری کے نیچے منہدم کروا دیں۔ جن لوگوں کے مکانات، دکانات، اور دیگر جائیدادیں گرائی گئیں، وہ یا تو عام لوگ تھے، یا ناپسندیدہ (حذب مخالف) فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ کسی جج صاحب یا وزیر مشیر کی جائیداد کو ہاتھ لگانا دور کی بات، میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا گیا۔

چیف جسٹس صاحب کے جاتے ہی ان کی مکان گراؤ مہم بھی رخصت ہوئی۔ پھر قوم نے یہ بھی دیکھا کہ ملک ریاض صاحب کا بحریہ ٹاؤن اور وزیراعظم پاکستان، عمران خاں صاحب کا بنی گالہ جرمانے کی ادائیگی کے بعد ناجائز سے جائز، اور حرام سے حلال ہوگیا۔

لیکن غریبوں کے مکانات جو گجر نالے جیسے مقامات پر کئی دہائیوں پر محیط تھے، ان سے ملک ریاض اور وزیراعظم صاحب کے مساوی سلوک نہیں کیا گیا۔ سرکاری مشینری موجودہ عدالتی احکامات کی بجاآوری میں انتہائی مستعدی سے موقع پر پہنچی اور غریبوں کے مکانات گرادیے گئے۔ ان کو یقین دلایا گیا کہ فی مکان 90 ہزار روپے کی ادائیگی کی جائے گی۔ یاد رہے کہ یہ نوے ہزار اس زمانے میں دیے جانے ہیں جب آٹے کا دس کلو کا تھیلا ساڑھے سات سو روپے کا، اور ایک لٹر دودھ 130 روپے کا ہے۔

تاہم متاثرین کے مطابق ان کو مبینہ رقم کی ادائیگی میں بھی تساہل اور تاخیر سے کام لیا جارہا ہے۔

یہ سوچنا عبث ہے کہ موئن جو دڑو کی سرزمین میں انسانیت کو بنیادی حقوق حاصل ہیں یا نہیں۔ کیوں کہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ یہاں بنیادی انسانی حقوق کی کوئی ضمانت نہیں۔ یہاں حقوق صرف ان لوگوں کے ہیں جو طاقتور ہیں۔ جن کے پاس پیسہ ہے اور اقتدار ہے۔ عام آدمی کی زندگی زمانہ قدیم کے غلاموں سے مختلف نہیں ہے۔

کچھ ہو نہیں سکتا، سوائے رونے اور سینہ پیٹنے کے۔

Houses are bulldozed along the Gujjar Nullah | Fahim Siddiqi/White Star

سرکاری و غیر سرکاری

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ہم نے شروع سے یہ دیکھا ہے کہ ایک طبقے کی اولین ترجیحات میں سرکاری نوکریوں کا حصول ہوتا ہے۔ لوگ جائز اور ناجائز طریقوں سے، مقابلے کے امتحان میں بیٹھ کر اور سفارش اور رشوت کا سہارا لے کر سرکاری ملازمتیں حاصل کرتے ہیں اور باقی زندگی چین کی بانسری بجاتے ہیں۔

ہمیں یاد ہے ایک دفعہ کراچی کے سوک سینٹر میں کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دفاتر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ سب سے پہلا تاثر جو قائم ہوا، وہ اچھا نہیں تھا۔ عمارت کے باہر اور اندر صفائی کی صورت حال ناگفتہ بہ تھی۔ جس چیز کو پانی کا تالاب بنایا گیا تھا وہاں غالباً بارش یا سیوریج کا پانی جمع تھا، جسے پان گٹکا کھانے والے حضرات نے اگل دان کے طور پر استعمال کیا ہوا تھا۔ عمارت میں داخل ہونے کے لیے جن سیڑھیوں کا استعمال کیا، وہاں بھی پان کی پیک سے گلکاری کی گئی تھی۔ حتیٰ کہ جن نشستوں پر سرکاری اہلکار تشریف فرما تھے، ان کے بغل میں بھی دیوار پر پان کی پیک سے ایبسٹریکٹ آرٹ بنایا گیا تھا۔

ان لوگوں کی نوکریاں پکی تھیں۔ جاب سیکیوریٹی حاصل تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی ملنی تھی۔ مزے کی بات یہ کہ ان لوگوں کو جو تنخواہوں اور پنشنز کی ادائیگی ہوتی ہے، وہ ہم جیسے غیر سرکاری لوگوں کی جیبوں سے بھی کی جاتی ہے۔ جب کہ ہم جیسے پرائیویٹ ملازموں کو نہ صرف یہ کہ کوئی جاب سیکیوریٹی حاصل نہیں ہوتی، مالک جب چاہے نوکری سے برخاست کر سکتا ہے، بلکہ ہمیں وہ سہولیات بھی حاصل نہیں ہوتیں جو سرکاری ملازموں کو حاصل ہوتی ہیں۔

بہ حیثیت پاکستانی، میرا ذہن اس معاشرتی ناہمواری کو قبول نہیں کرتا۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ سرکاری اور غیر سرکاری ملازمت میں تفریق کیوں ہیں۔ دونوں کی جاب سیکیوریٹی اور مراعات مساوی کیوں نہیں ہیں؟ یہ معاشرتی انصاف حاصل کرنے کے لیے عوام کو کن اداروں کا دفتر کھٹکھٹانا پڑے گا؟

صحافتی جنگ (میڈیا وار)

انتیس جون 2021 انفارمیشن منسٹر، فواد حسین چوہدری نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ہندوستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف پراپگینڈہ بے حد شدو مد کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

منسٹر صاحب کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے حالیہ (گستاخی رسول ﷺ کے معاملے پر) ہونے والے احتجاج کے موقع پر ہندوستان کے شہر احمد آباد سے صرف ساڑھے تین منٹ کے دوران 3 لاکھ پاکستان مخالف ٹوئیٹس شایع کی گئیں۔

وزیر موصوف کے اس دعوے میں کتنی سچائی اور کتنا مبالغہ ہے، یہ تو وزیر صاحب جانیں یا پھر اللہ جانے۔ تاہم اس بات میں شک و شبہ نہیں کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور وہ پاکستان کی مخالفت کا کوئی موقع ضایع ہونے نہیں دیتا۔ تاہم بھارت سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہم سے دشمنی نہ نبھائے، یہ بے وقوفی کی حدتک سادگی ہے۔

کشمیر صاحب دیگر معاملات پر پاکستان اور بھارت باہم مخالفت پر گامزن ہیں۔ اور جب تک دونوں ملکوں کے مابین تعلقات معمول پر نہیں آجاتے، مخالفت اور دشمنی کی فضا برقرار رہے گی۔

دشمن سے دوستی کی توقع رکھنا حماقت ہے۔ سوال یہ نہیں کہ دشمن اپنی مخالفت پر کس طرح اڑا ہوا ہے، سوال یہ ہے کہ ہم اپنے دفاع کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہم بھی اتنے ہی مستعد اور باصلاحیت ہیں، جتنا دشمن؟ کیا اسمبلی کے فلور پر شکوے شکایتیں کر کے ہم اپنی حکومتی اور محکمانہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں؟ یا ہمیں اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے؟