Month: July 2022

مشیت الٰہی

قَالَ رَبِّ بِمَآ أَغْوَيْتَنِى لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ – سورہ الحجر، آیت ٣٩

اللہ پاک نے فرشتوں کو بتایا کہ وہ پاک ذات انسان کو تخلیق کرنے جا رہی ہے۔

فرشتوں نے اللہ کی طرف سے عطا کردہ علم کی بنیاد پر کہا انسان دنیا میں فساد برپا کریں گے (گویا انسانوں کو دنیا میں ہی بسانے کا انتظام تھا)۔ یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ آیا فرشتوں نے اللہ کے ارادے پر تنقید کی تھی۔ ایسا ہو نہیں سکتا، کیوں کہ فرشتوں کی فرمانبراری ثابت ہے۔ یقیناً اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چوں کہ فرشتوں کا علم ‘محدود’ ہے، ان کو اتنا ہی پتہ ہے جتنا اللہ نے انہیں علم دیا ہے۔ تو اپنے علم کی بنیاد پر انہوں نے اللہ کے اس ارادے کو سمجھنے کی کوشش کی ہو گی۔ ممکن ہے کہ اللہ نے آدم علیہ السّلام سے پہلے بھی انسان یا انسان نما کوئی مخلوق پیدا فرمائی ہو، اور ان کے اعمال اور اطوار پر فرشتوں کی نظر ہو۔ آگے اللہ فرماتا ہے کہ وہ بہتر جانتا ہے، یعنی جو اللہ جانتا ہے وہ کوئی نہیں جانتا۔

مولا نے فرمایا جو میرا فرمانبردار ہوگا وہ فساد نہیں پھیلائے گا۔

چوں کہ ابلیس فرشتوں کی معیت میں اعلیٰ مقام پر فائز تھا (اللہ جب چاہے اپنا عطا کردہ مقام چھین لے)، اس کے علم میں ملائکہ اور اللہ کے مابین یہ گفتگو لازمی ہوگی۔

اللہ پاک نے انسان (آدم) کو تخلیق کرنے کے بعد فرشتوں کو حکم دیا کہ انسان کو سجدہ کیا جائے (یہ حکم ابلیس کے لیے بھی تھا کیوں کہ وہ فرشتوں کی جماعت کا ایک رکن تھا)۔ یہاں سوال یہ نہیں کہ کس کو سجدہ کرنا ہے۔ کیا اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کیا جا سکتا تھا؟؟؟؟ سوال وہ کرتے ہیں جو فرمانبردار نہیں ہوتے۔ وہ اپنے علم، عقل اور لوجک کے پجاری اور فرمانبردار ہوتے ہیں۔ اللہ حکم دے کہ قبلہ رخ سجدہ کرنا ہے، تو بس کرنا ہے۔ یہ نہیں پوچھنا کہ کعبہ کے اندر ایسا کیا ہے کہ اس مکعبی ساخت کو سجدہ کیا جائے۔ بندگی بے چوں چرا ہوتی ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام میں عقل کے استعمال پر پابندی ہے۔ عقل کا استعمال سیدھے راستے کو پہچاننے اور اللہ کی معرفت کے لیے لازم ہے۔ اس کے علاوہ انسانیت کی فلاح کے لیے بھی (مثلاً انسانوں کے لیے مفید ایجادات اور ری سرچ وغیرہ کے لیے) عقل کا استعمال ضروری ہے۔

فرشتے، اللہ کے فرمانبردار بندے تھے، سجدے میں گر گئے۔ ابلیس تکبر اور حسد و جلن کا شکار ہو گیا۔ اس سے برداشت نہ ہوا کہ اللہ نے انسان کو جنات اور فرشتوں پر بھی فضیلت دی۔

تکبر اور حسد شیطانی صفات ہیں۔ یہ انسان کو مردود یعنی ذلیل و خوار کر دیتے ہیں۔

شیطان اتنا متکبر تھا کہ اپنی غلطی ماننے، نادم ہونے اور توبہ کرنے کے بجائے الٹا اللہ پر اپنی ناکامی کا الزام دھر دیا، کہ اللہ نے اسے گمراہ کیا (حالاں کہ امتحان تو سب کا ایک ہی تھا، فرشتوں کو مختلف پرچہ نہیں ملا تھا۔ فرشتے امتحان میں پاس اور شیطان فیل ہو گیا)۔ اسی پر بس نہیں، اس شیطان مردود کو انسان سے حسد اور جلن نے اسے تاقیامت انسان دشمنی پر آمادہ کیا۔ اللہ سے کہا کہ جس طرح آپ نے مجھے اس کڑے امتحان میں ڈال کر میرا سب کچھ مجھ سے چھین لیا، میں بھی یہ بات ثابت کر کے رہوں گا کہ میں درست ہوں، انسان افضل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے آپ مجھے طاقت اور مہلت دیں، میں انسانوں کو بھی ایسے ہی امتحان میں ڈالتا رہوں گا جیسے آپ نے مجھے ڈالا۔ پھر دیکھتے ہیں کہ کیا یہ انسان سجدے کے لائق تھا۔

ایک اور بات معلوم ہوئی کہ عاجزی، انکساری اور تائب ہونا غیر شیطانی صفات ہیں، اور اللہ کو یہ خصوصیات اپنے بندوں میں بہت پسند ہیں۔

سب کچھ رب کی مشیت ہے۔ ابلیس کی نافرمانی، اس کی گستاخی، اس کا اعلان جنگ، سب اللہ کی مرضی سے۔ ورنہ کس کی مجال جو اللہ کے آگے بول سکے؟

اللہ کا فرمانا تھا کہ جو اس کے فرمانبردار بندے ہیں وہ شیطان کے دام میں نہیں آئیں گے۔ یعنی یہاں مالک شیطان کے ذریعے اپنا ہی کام لے رہا ہے ☺️ انسانوں سے وہی امتحان ہر دم لے رہا ہے جو ملائکہ اور ابلیس سے لیا۔ سب مایہ ہے، نہ ملائکہ نہ ابلیس، بس اللہ ہی اللہ، اسی کا حکم، اسی کی مرضی۔ جو صحیح ہے وہ بھی اس کی مرضی، جو صحیح نہیں وہ بھی مالک کی منشاء۔