Month: June 2021

موئن جو دڑو کی سرزمین سے: غرباء کے مکانات کا انہدام

تقریباً 2 سال پہلے سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس صاحب نے سوشل میڈیا اور ‘سرکاری و غیر سرکاری‘ میڈیا پر ‘ہیروپنتی‘ کے چکر میں ‘عوام‘ کی جائیدادیں، قانون کی چھتری کے نیچے منہدم کروا دیں۔ جن لوگوں کے مکانات، دکانات، اور دیگر جائیدادیں گرائی گئیں، وہ یا تو عام لوگ تھے، یا ناپسندیدہ (حذب مخالف) فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ کسی جج صاحب یا وزیر مشیر کی جائیداد کو ہاتھ لگانا دور کی بات، میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا گیا۔

چیف جسٹس صاحب کے جاتے ہی ان کی مکان گراؤ مہم بھی رخصت ہوئی۔ پھر قوم نے یہ بھی دیکھا کہ ملک ریاض صاحب کا بحریہ ٹاؤن اور وزیراعظم پاکستان، عمران خاں صاحب کا بنی گالہ جرمانے کی ادائیگی کے بعد ناجائز سے جائز، اور حرام سے حلال ہوگیا۔

لیکن غریبوں کے مکانات جو گجر نالے جیسے مقامات پر کئی دہائیوں پر محیط تھے، ان سے ملک ریاض اور وزیراعظم صاحب کے مساوی سلوک نہیں کیا گیا۔ سرکاری مشینری موجودہ عدالتی احکامات کی بجاآوری میں انتہائی مستعدی سے موقع پر پہنچی اور غریبوں کے مکانات گرادیے گئے۔ ان کو یقین دلایا گیا کہ فی مکان 90 ہزار روپے کی ادائیگی کی جائے گی۔ یاد رہے کہ یہ نوے ہزار اس زمانے میں دیے جانے ہیں جب آٹے کا دس کلو کا تھیلا ساڑھے سات سو روپے کا، اور ایک لٹر دودھ 130 روپے کا ہے۔

تاہم متاثرین کے مطابق ان کو مبینہ رقم کی ادائیگی میں بھی تساہل اور تاخیر سے کام لیا جارہا ہے۔

یہ سوچنا عبث ہے کہ موئن جو دڑو کی سرزمین میں انسانیت کو بنیادی حقوق حاصل ہیں یا نہیں۔ کیوں کہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ یہاں بنیادی انسانی حقوق کی کوئی ضمانت نہیں۔ یہاں حقوق صرف ان لوگوں کے ہیں جو طاقتور ہیں۔ جن کے پاس پیسہ ہے اور اقتدار ہے۔ عام آدمی کی زندگی زمانہ قدیم کے غلاموں سے مختلف نہیں ہے۔

کچھ ہو نہیں سکتا، سوائے رونے اور سینہ پیٹنے کے۔

Houses are bulldozed along the Gujjar Nullah | Fahim Siddiqi/White Star

سرکاری و غیر سرکاری

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ہم نے شروع سے یہ دیکھا ہے کہ ایک طبقے کی اولین ترجیحات میں سرکاری نوکریوں کا حصول ہوتا ہے۔ لوگ جائز اور ناجائز طریقوں سے، مقابلے کے امتحان میں بیٹھ کر اور سفارش اور رشوت کا سہارا لے کر سرکاری ملازمتیں حاصل کرتے ہیں اور باقی زندگی چین کی بانسری بجاتے ہیں۔

ہمیں یاد ہے ایک دفعہ کراچی کے سوک سینٹر میں کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دفاتر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ سب سے پہلا تاثر جو قائم ہوا، وہ اچھا نہیں تھا۔ عمارت کے باہر اور اندر صفائی کی صورت حال ناگفتہ بہ تھی۔ جس چیز کو پانی کا تالاب بنایا گیا تھا وہاں غالباً بارش یا سیوریج کا پانی جمع تھا، جسے پان گٹکا کھانے والے حضرات نے اگل دان کے طور پر استعمال کیا ہوا تھا۔ عمارت میں داخل ہونے کے لیے جن سیڑھیوں کا استعمال کیا، وہاں بھی پان کی پیک سے گلکاری کی گئی تھی۔ حتیٰ کہ جن نشستوں پر سرکاری اہلکار تشریف فرما تھے، ان کے بغل میں بھی دیوار پر پان کی پیک سے ایبسٹریکٹ آرٹ بنایا گیا تھا۔

ان لوگوں کی نوکریاں پکی تھیں۔ جاب سیکیوریٹی حاصل تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی ملنی تھی۔ مزے کی بات یہ کہ ان لوگوں کو جو تنخواہوں اور پنشنز کی ادائیگی ہوتی ہے، وہ ہم جیسے غیر سرکاری لوگوں کی جیبوں سے بھی کی جاتی ہے۔ جب کہ ہم جیسے پرائیویٹ ملازموں کو نہ صرف یہ کہ کوئی جاب سیکیوریٹی حاصل نہیں ہوتی، مالک جب چاہے نوکری سے برخاست کر سکتا ہے، بلکہ ہمیں وہ سہولیات بھی حاصل نہیں ہوتیں جو سرکاری ملازموں کو حاصل ہوتی ہیں۔

بہ حیثیت پاکستانی، میرا ذہن اس معاشرتی ناہمواری کو قبول نہیں کرتا۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ سرکاری اور غیر سرکاری ملازمت میں تفریق کیوں ہیں۔ دونوں کی جاب سیکیوریٹی اور مراعات مساوی کیوں نہیں ہیں؟ یہ معاشرتی انصاف حاصل کرنے کے لیے عوام کو کن اداروں کا دفتر کھٹکھٹانا پڑے گا؟

صحافتی جنگ (میڈیا وار)

انتیس جون 2021 انفارمیشن منسٹر، فواد حسین چوہدری نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ہندوستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف پراپگینڈہ بے حد شدو مد کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

منسٹر صاحب کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے حالیہ (گستاخی رسول ﷺ کے معاملے پر) ہونے والے احتجاج کے موقع پر ہندوستان کے شہر احمد آباد سے صرف ساڑھے تین منٹ کے دوران 3 لاکھ پاکستان مخالف ٹوئیٹس شایع کی گئیں۔

وزیر موصوف کے اس دعوے میں کتنی سچائی اور کتنا مبالغہ ہے، یہ تو وزیر صاحب جانیں یا پھر اللہ جانے۔ تاہم اس بات میں شک و شبہ نہیں کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور وہ پاکستان کی مخالفت کا کوئی موقع ضایع ہونے نہیں دیتا۔ تاہم بھارت سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہم سے دشمنی نہ نبھائے، یہ بے وقوفی کی حدتک سادگی ہے۔

کشمیر صاحب دیگر معاملات پر پاکستان اور بھارت باہم مخالفت پر گامزن ہیں۔ اور جب تک دونوں ملکوں کے مابین تعلقات معمول پر نہیں آجاتے، مخالفت اور دشمنی کی فضا برقرار رہے گی۔

دشمن سے دوستی کی توقع رکھنا حماقت ہے۔ سوال یہ نہیں کہ دشمن اپنی مخالفت پر کس طرح اڑا ہوا ہے، سوال یہ ہے کہ ہم اپنے دفاع کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہم بھی اتنے ہی مستعد اور باصلاحیت ہیں، جتنا دشمن؟ کیا اسمبلی کے فلور پر شکوے شکایتیں کر کے ہم اپنی حکومتی اور محکمانہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں؟ یا ہمیں اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے؟