تقریباً 2 سال پہلے سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس صاحب نے سوشل میڈیا اور ‘سرکاری و غیر سرکاری‘ میڈیا پر ‘ہیروپنتی‘ کے چکر میں ‘عوام‘ کی جائیدادیں، قانون کی چھتری کے نیچے منہدم کروا دیں۔ جن لوگوں کے مکانات، دکانات، اور دیگر جائیدادیں گرائی گئیں، وہ یا تو عام لوگ تھے، یا ناپسندیدہ (حذب مخالف) فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ کسی جج صاحب یا وزیر مشیر کی جائیداد کو ہاتھ لگانا دور کی بات، میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا گیا۔
چیف جسٹس صاحب کے جاتے ہی ان کی مکان گراؤ مہم بھی رخصت ہوئی۔ پھر قوم نے یہ بھی دیکھا کہ ملک ریاض صاحب کا بحریہ ٹاؤن اور وزیراعظم پاکستان، عمران خاں صاحب کا بنی گالہ جرمانے کی ادائیگی کے بعد ناجائز سے جائز، اور حرام سے حلال ہوگیا۔
لیکن غریبوں کے مکانات جو گجر نالے جیسے مقامات پر کئی دہائیوں پر محیط تھے، ان سے ملک ریاض اور وزیراعظم صاحب کے مساوی سلوک نہیں کیا گیا۔ سرکاری مشینری موجودہ عدالتی احکامات کی بجاآوری میں انتہائی مستعدی سے موقع پر پہنچی اور غریبوں کے مکانات گرادیے گئے۔ ان کو یقین دلایا گیا کہ فی مکان 90 ہزار روپے کی ادائیگی کی جائے گی۔ یاد رہے کہ یہ نوے ہزار اس زمانے میں دیے جانے ہیں جب آٹے کا دس کلو کا تھیلا ساڑھے سات سو روپے کا، اور ایک لٹر دودھ 130 روپے کا ہے۔
تاہم متاثرین کے مطابق ان کو مبینہ رقم کی ادائیگی میں بھی تساہل اور تاخیر سے کام لیا جارہا ہے۔
یہ سوچنا عبث ہے کہ موئن جو دڑو کی سرزمین میں انسانیت کو بنیادی حقوق حاصل ہیں یا نہیں۔ کیوں کہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ یہاں بنیادی انسانی حقوق کی کوئی ضمانت نہیں۔ یہاں حقوق صرف ان لوگوں کے ہیں جو طاقتور ہیں۔ جن کے پاس پیسہ ہے اور اقتدار ہے۔ عام آدمی کی زندگی زمانہ قدیم کے غلاموں سے مختلف نہیں ہے۔
کچھ ہو نہیں سکتا، سوائے رونے اور سینہ پیٹنے کے۔